اب کسی اندھے سفر کے لیے تیار ہوا چاہتا ہے
اک ذرا دیر میں رخصت ترا بیمار ہوا چاہتا ہے
آخری قسط بھی سانسوں کی چکا دے گا چکانے والا
زندگی قرض سے تیرے وہ سبکبار ہوا چاہتا ہے
راز سر بستہ سمجھتے رہے اب تک جسے اہل دانش
منکشف آج وہی راز سر دار ہوا چاہتا ہے
دل وحشی کے بہلنے کا نہیں ایک بھی سامان یہاں
محفل زہد مزاجاں سے یہ بیزار ہوا چاہتا ہے
دیکھ لینی تھی تجھے سینۂ آفت زدگاں کی سختی
تیرا ہر تیر ہدف کار ہی بے کار ہوا چاہتا ہے
پھیلتے شہروں کے جنگل میں یہ غاروں کی طرح تنگ مکاں
خون میں وحشئ خوابیدہ بھی بے دار ہوا چاہتا ہے
درد دل بانٹتا آیا ہے زمانے کو جو اب تک انجمؔ
کچھ ہوا یوں کہ وہی درد سے دو چار ہوا چاہتا ہے
غزل
اب کسی اندھے سفر کے لیے تیار ہوا چاہتا ہے
انجم عرفانی