توتلی عمر میں جو بچہ ذرا مشفق تھا
کچھ بڑا ہو کے دہانے پہ نہ پہنچا آخر
انیس انصاری
تم درد کی لذت کیا جانو کب تم نے چکھے ہیں زہر سبو
ہم اپنے وجود کے شاہد ہیں سنگسار ہوئے شمشیر ہوئے
انیس انصاری
تم کو بھی پہچان نہیں ہے شاید میری الجھن کی
لیکن ہم ملتے رہتے تو اچھا ہی رہتا جانم
انیس انصاری
دیکھا ہے کسی آہوئے خوش چشم کو اس نے
آنکھوں میں بہت اس کی چمک آئی ہوئی ہے
انیس اشفاق
اس پہ حیراں ہیں خریدار کہ قیمت ہے بہت
میرے گوہر کی تب و تاب نہیں دیکھتے ہیں
انیس اشفاق
کیوں نہیں ہوتے مناجاتوں کے معنی منکشف
رمز بن جاتا ہے کیوں حرف دعا ہم سے سنو
انیس اشفاق
نہ میرے ہاتھ سے چھٹنا ہے میرے نیزے کو
نہ تیرے تیر کو تیری کماں میں رہنا ہے
انیس اشفاق

