اس شہر کے لوگ عجیب سے ہیں اب سب ہی تمہارے اسیر ہوئے
جب جاں پہ برستے تھے پتھر اس وقت ہمیں دلگیر ہوئے
کچھ لوگ تمہاری آنکھوں سے کرتے ہیں طلب ہیرے موتی
ہم صحرا صحرا ڈوب گئے اک آن میں جوگی فقیر ہوئے
تم درد کی لذت کیا جانو کب تم نے چکھے ہیں زہر سبو
ہم اپنے وجود کے شاہد ہیں سنگسار ہوئے شمشیر ہوئے
یہ پہروں پہروں سوچ نگر راتوں راتوں بے خواب لہر
پھر کیسے کٹے گا دھوپ سفر جب پیر لٹی جاگیر ہوئے
اک عمر گزاری ہے یوں ہی سایوں کے تعاقب میں ہم نے
ٹک بیٹھ گئے پھر چل نکلے ہنس بول لیے دلگیر ہوئے
کچھ شہر تمہارا تنگ بھی تھا کچھ تم بھی تھے کمزور ذرا
پتھر کی نگاہوں کے ڈر سے تم اپنے ہی گھر میں اسیر ہوئے
غزل
اس شہر کے لوگ عجیب سے ہیں اب سب ہی تمہارے اسیر ہوئے
انیس انصاری