EN हिंदी
کب عشق میں یاروں کی پذیرائی ہوئی ہے | شیح شیری
kab ishq mein yaron ki pazirai hui hai

غزل

کب عشق میں یاروں کی پذیرائی ہوئی ہے

انیس اشفاق

;

کب عشق میں یاروں کی پذیرائی ہوئی ہے
ہر کوہ کن و قیس کی رسوائی ہوئی ہے

اس کوہ کو میں نے ہی تراشا ہے مری جان
تجھ تک یہ جوئے شیر مری لائی ہوئی ہے

اس شہر میں کیا چاند چمکتا ہوا دیکھیں
اس شہر میں ہر شکل تو گہنائی ہوئی ہے

وہ عشق کی زنجیر جو کاٹے نہیں کٹتی
پیروں میں وہ تیری ہی تو پہنائی ہوئی ہے

یہ تخت سبا خلعت گل کرسیٔ مہتاب
سب تیرے لیے انجمن آرائی ہوئی ہے

جو تیرے خزانے کے لیے لوح شرف ہے
وہ مہر جواہر مری ٹھکرائی ہوئی ہے

شہرہ ہے بہت جس کی تلاوت کا چمن میں
وہ آیت گل میری ہی پڑھوائی ہوئی ہے

تھی جو نہ کسی شانۂ یوسف کی طلب گار
وہ زلف زلیخا مری سودائی ہوئی ہے

دیکھا ہے کسی آہوئے خوش چشم کو اس نے
آنکھوں میں بہت اس کی چمک آئی ہوئی ہے