روئے گل چہرۂ مہتاب نہیں دیکھتے ہیں
ہم تری طرح کوئی خواب نہیں دیکھتے ہیں
سینۂ موج پہ کشتی کو رواں رکھتے ہیں
گرد اپنے کوئی گرداب نہیں دیکھتے ہیں
تشنگی میں بھی وہ پابند قناعت ہیں کہ ہم
بھول کر بھی طرف آب نہیں دیکھتے ہیں
سر بھی موجود ہیں شمشیر ستم بھی موجود
شہر میں خون کا سیلاب نہیں دیکھتے ہیں
آ گئے ہیں یہ مرے شہر میں کس شہر کے لوگ
گفتگو میں ادب آداب نہیں دیکھتے ہیں
آنا جانا انہیں گلیوں میں ابھی تک ہے مگر
اب وہاں مجمع احباب نہیں دیکھتے ہیں
کس چمن میں ہیں کہ موسم تو گلوں کا ہے مگر
ایک بھی شاخ کو شاداب نہیں دیکھتے ہیں
اس پہ حیراں ہیں خریدار کہ قیمت ہے بہت
میرے گوہر کی تب و تاب نہیں دیکھتے ہیں
ہو گئے سارے بلا خیز سمندر پایاب
اب سفینہ کوئی غرقاب نہیں دیکھتے ہیں
غزل
روئے گل چہرۂ مہتاب نہیں دیکھتے ہیں
انیس اشفاق