EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اس کی مٹھی میں جواہر تھے نظر میری طرف
اور مجھے پیرایۂ عرض ہنر آتا نہ تھا

انیس اشفاق




یہ خانہ ہمیشہ سے ویران ہے
کہاں کوئی دل کے مکاں میں رہا

انیس اشفاق




آج انساں کو تپتے صحرا میں
بہتا دریا تلاش کرنا ہے

انیس ابر




ابرؔ دنیا کو چھوڑ جانے کا
اک بہانہ تلاش کرنا ہے

انیس ابر




کیوں ہاتھ دل سے لگاتے ہو بار بار اپنا
کیا دل میں اب بھی کوئی بے نظیر رہتا ہے

انیس ابر




لفظ یوں خامشی سے لڑتے ہیں
جس طرح غم ہنسی سے لڑتے ہیں

انیس ابر




میں مسکراتا مگر دی نہ اشک نے مہلت
خوشی جب ایک ملی ساتھ غم ہزار ملے

انیس ابر