EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

گوارا ہی نہ تھی جن کو جدائی میری دم بھر کی
انہیں سے آج میری شکل پہچانی نہیں جاتی

انیس احمد انیس




ہمیں نے چن لئے پھولوں کے بدلے خار دامن میں
فقط گلچیں کے سر الزام ٹھہرایا نہیں جاتا

انیس احمد انیس




کبھی اک بار ہولے سے پکارا تھا مجھے تم نے
کسی کی مجھ سے اب آواز پہچانی نہیں جاتی

انیس احمد انیس




میں وہ رند نو نہیں ہوں جو ذرا سی پی کے بہکوں
ابھی اور اور ساقی کہ میں پھر سنبھل رہا ہوں

انیس احمد انیس




طواف ماہ کرنا اور خلا میں سانس لینا کیا
بھروسہ جب نہیں انسان کو انسان کے دل پر

انیس احمد انیس




ادھر وہ عہد و پیمان وفا کی بات کرتے ہیں
ادھر مشق ستم بھی ترک فرمایا نہیں جاتا

انیس احمد انیس




وہ اپنے دامن پارہ پہ بھی نگاہ کرے
جہاں میں مجھ پہ اٹھا کر جو انگلیاں گزرے

انیس احمد انیس