اسی زمیں پہ اسی آسماں میں رہنا ہے
ترا اسیر ہوں تیرے جہاں میں رہنا ہے
میں ایک پل تری دنیا میں کیا قیام کروں
کہ عمر بھر تو مجھے رفتگاں میں رہنا ہے
میں جانتا ہوں بہت سخت دھوپ ہے لیکن
سفر میں ہوں تو صف رہ رواں میں رہنا ہے
اتر گئی ہے تو سینے سے مت نکال اسے
کہ میرے خون کو تیری سناں میں رہنا ہے
نہ میرے ہاتھ سے چھٹنا ہے میرے نیزے کو
نہ تیرے تیر کو تیری کماں میں رہنا ہے
کھلے رہیں جو کھلے ہیں قفس کے دروازے
وہ کب چھٹیں گے جنہیں قید جاں میں رہنا ہے
تو پھر یہ زندگیٔ جاوداں کا ملنا کیا
جو ہر نفس نفس رائیگاں میں رہنا ہے
غزل
اسی زمیں پہ اسی آسماں میں رہنا ہے
انیس اشفاق