پتھریلی سی شام میں تم نے ایسے یاد کیا جانم
ساری رات تمہاری خاطر میں نے زہر پیا جانم
سورج کی مانند بنا ہوں ریزہ ریزہ بکھرا ہوں
اب جیون کا سر چشمہ ہوں ویسے خوب جلا جانم
تم نے مجھ میں جو کچھ کھویا اس کی قیمت تم جانو
میں نے تم سے جو کچھ پایا ہے وہ بیش بہا جانم
تم کو بھی پہچان نہیں ہے شاید میری الجھن کی
لیکن ہم ملتے رہتے تو اچھا ہی رہتا جانم
یہ صاحب جن سے مل کر سب کا جی خوش ہو جاتا ہے
رات گئے تک ان کے کمرے میں جلتا ہے کیا جانم
رکھ پاؤ تو روک لو ہم کو گہرائی کے باسی ہیں
بہتے پانی کے قطروں میں ہوتا ہے دریا جانم
درد جدائی میں لکھے ہیں شعر تمہارے نام بہت
تم میرے گھر میں رہتیں تو کیا ایسا ہوتا جانم
غزل
پتھریلی سی شام میں تم نے ایسے یاد کیا جانم
انیس انصاری