مرا ہر تیر نشانے پہ نہ پہنچا آخر
در سفر میں بھی ٹھکانے پہ نہ پہنچا آخر
توتلی عمر میں جو بچہ ذرا مشفق تھا
کچھ بڑا ہو کے دہانے پہ نہ پہنچا آخر
جی کو سمجھاتا ہوں قسمت میں لکھا تھا سو ہوا
کچھ سنبھل کر بھی بہانے پہ نہ پہنچا آخر
ایک غم ہوتا تو سینے سے لگا لیتا کوئی
غم کا انبار اٹھانے پہ نہ پہنچا آخر
پھل کترنے کے لئے ڈار اتر آتی تھی
بے ثمر کوئی بلانے پہ نہ پہنچا آخر
شہر کچھ چھوٹ گئے گرد سفر لپٹی رہی
کوئی روداد سنانے پہ نہ پہنچا آخر
غزل
مرا ہر تیر نشانے پہ نہ پہنچا آخر
انیس انصاری