EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہر بات ہے خالدؔ کی زمانے سے نرالی
باشندہ ہے شاید کسی دنیائے دگر کا

عبد العزیز خالد




مسجد میں گر گزر نہ ہوا دیر ہی سہی
بے کار بیٹھے کیوں رہیں اک سیر ہی سہی

عبد الغفور نساخ




پیری میں شوق حوصلہ فرسا نہیں رہا
وہ دل نہیں رہا وہ زمانہ نہیں رہا

عبد الغفور نساخ




ان کے دل کی کدورت اور بڑھی
ذکر کیجیے اگر صفائی کا

عبد الغفور نساخ




ظاہراً موت ہے قضا ہے عشق
پر حقیقت میں جاں فزا ہے عشق

عبد الغفور نساخ




حسن اک دریا ہے صحرا بھی ہیں اس کی راہ میں
کل کہاں ہوگا یہ دریا یہ بھی تو سوچو ذرا

عبد الحفیظ نعیمی




کھڑا ہوا ہوں سر راہ منتظر کب سے
کہ کوئی گزرے تو غم کا یہ بوجھ اٹھوا دے

عبد الحفیظ نعیمی