EN हिंदी
اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا | شیح شیری
is tilsim-e-roz-o-shab se to kabhi niklo zara

غزل

اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا

عبد الحفیظ نعیمی

;

اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا
کم سے کم وجدان کے صحرا ہی میں گھومو ذرا

نام کتنے ہی لکھے ہیں دل کی اک محراب پر
ہوگا ان میں ہی تمہارا نام بھی ڈھونڈو ذرا

بدگمانی کی یہی غیروں کو کافی ہے سزا
مسکرا کر پھر اسی دن کی طرح دیکھو ذرا

وقت کے پتھر کے نیچے اک دبا چشمہ ہوں میں
آؤ پیاسو مل کے یہ پتھر اٹھاؤ تو ذرا

حسن اک دریا ہے صحرا بھی ہیں اس کی راہ میں
کل کہاں ہوگا یہ دریا یہ بھی تو سوچو ذرا

دو کلوں کے بیچ میں اک آج ہوں الجھا ہوا
میری اس کم فرصتی کے کرب کو سمجھو ذرا

وسعت کون و مکاں بھی اب ہوئی جاتی ہے تنگ
اور بھی کچھ اے جنوں والو ابھی سمٹو ذرا

تھک گئے ہوگے بہت پر پیچ تھی چاہت کی راہ
آؤ میری گود میں سر رکھ کے سستا لو ذرا

ایک مٹتے لفظ کے بھی کام آ جاؤ کبھی
سنگ دل پر مٹنے سے پہلے مجھے لکھ لو ذرا

ہے تعاقب میں نعیمیؔ سایہ سا اک روز و شب
دوست ہی شاید ہو کوئی مڑ کے تو دیکھو ذرا