EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میں بڑھتے بڑھتے کسی روز تجھ کو چھو لیتا
کہ گن کے رکھ دیئے تو نے مری مجال کے دن

عبد الاحد ساز




میں ایک ساعت بے خود میں چھو گیا تھا جسے
پھر اس کو لفظ تک آتے ہوئے زمانے لگے

عبد الاحد ساز




مرے مہ و سال کی کہانی کی دوسری قسط اس طرح ہے
جنوں نے رسوائیاں لکھی تھیں خرد نے تنہائیاں لکھی ہیں

عبد الاحد ساز




مری رفیق نفس موت تیری عمر دراز
کہ زندگی کی تمنا ہے دل میں افزوں پھر

عبد الاحد ساز




مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے
گندمی لمس میں ہے ذائقۂ نان جویں

عبد الاحد ساز




مشابہت کے یہ دھوکے مماثلت کے فریب
مرا تضاد لیے مجھ سا ہو بہو کیا ہے

عبد الاحد ساز




نظر کی موت اک تازہ المیہ
اور اتنے میں نظارہ مر رہا ہے

عبد الاحد ساز