میں بڑھتے بڑھتے کسی روز تجھ کو چھو لیتا
کہ گن کے رکھ دیئے تو نے مری مجال کے دن
عبد الاحد ساز
میں ایک ساعت بے خود میں چھو گیا تھا جسے
پھر اس کو لفظ تک آتے ہوئے زمانے لگے
عبد الاحد ساز
مرے مہ و سال کی کہانی کی دوسری قسط اس طرح ہے
جنوں نے رسوائیاں لکھی تھیں خرد نے تنہائیاں لکھی ہیں
عبد الاحد ساز
مری رفیق نفس موت تیری عمر دراز
کہ زندگی کی تمنا ہے دل میں افزوں پھر
عبد الاحد ساز
مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے
گندمی لمس میں ہے ذائقۂ نان جویں
عبد الاحد ساز
مشابہت کے یہ دھوکے مماثلت کے فریب
مرا تضاد لیے مجھ سا ہو بہو کیا ہے
عبد الاحد ساز
نظر کی موت اک تازہ المیہ
اور اتنے میں نظارہ مر رہا ہے
عبد الاحد ساز