EN हिंदी
نخچیر ہوں میں کشمکش فکر و نظر کا | شیح شیری
naKHchir hun main kashmakash-e-fikr-o-nazar ka

غزل

نخچیر ہوں میں کشمکش فکر و نظر کا

عبد العزیز خالد

;

نخچیر ہوں میں کشمکش فکر و نظر کا
حق مجھ سے ادا ہو نہ در و بست ہنر کا

مغرب مجھے کھینچے ہے تو روکے مجھے مشرق
دھوبی کا وہ کتا ہوں کہ جو گھاٹ نہ گھر کا

دبتا ہوں کسی سے نہ دباتا ہوں کسی کو
قائل ہوں مساوات بنی نوع بشر کا

ہر چیز کی ہوتی ہے کوئی آخری حد بھی
کیا کوئی بگاڑے گا کسی خاک بسر کا

دلگیر تو بے شک ہوں پہ نومید نہیں ہوں
روشن ہے دل شب میں دیا نور سحر کا

پوشیدہ نہیں مجھ سے کوئی جزر و مد شوق
محرم ہوں صدا دلبر انگیختہ بر کا

زنداں و سلاسل سے صداقت نہیں دبتی
ہے شان کئی سلسلہ بس رقص شرر کا

تصویر کوئی بنتی دکھائی نہیں دیتی
کیا صرفہ عبث ہم نے کیا خون جگر کا

کیا شغل شجر کار ہے افکار سے بہتر
سودا سر شوریدہ میں گر ہو نہ ثمر کا

کیوں سر خوش رفتار نہ ہو ہو قافلۂ موج
رہزن کا ہے اندیشہ نہ غم زاد سفر کا

ڈالی ہے ستاروں پہ کمند اہل زمیں نے
زہرہ کا وہ افسوں نہ فسانہ وہ قمر کا

ہر بات ہے خالدؔ کی زمانے سے نرالی
باشندہ ہے شاید کسی دنیائے دگر کا