EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ ہاتھ راکھ میں خوابوں کی ڈالتے تو ہو
مگر جو راکھ میں شعلہ کوئی دبا نکلا

عبد الحفیظ نعیمی




برستے تھے بادل دھواں پھیلتا تھا عجب چار جانب
فضا کھل اٹھی تو سراپا تمہارا بہت یاد آیا

عبد الحمید




دم بہ دم مجھ پہ چلا کر تلوار
ایک پتھر کو جلا دی اس نے

عبد الحمید




دن گزرتے ہیں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں
ایک لمحہ جو کسی طرح گزرتا ہی نہیں

عبد الحمید




دور بستی پہ ہے دھواں کب سے
کیا جلا ہے جسے بجھاتے نہیں

عبد الحمید




ایک مشعل تھی بجھا دی اس نے
پھر اندھیروں کو ہوا دی اس نے

عبد الحمید




فلک پر اڑتے جاتے بادلوں کو دیکھتا ہوں میں
ہوا کہتی ہے مجھ سے یہ تماشا کیسا لگتا ہے

عبد الحمید