EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نیک گزرے مری شب صدق بدن سے تیرے
غم نہیں رابطۂ صبح جو کاذب ٹھہرے

عبد الاحد ساز




نیند مٹی کی مہک سبزے کی ٹھنڈک
مجھ کو اپنا گھر بہت یاد آ رہا ہے

عبد الاحد ساز




پس منظر میں 'فیڈ' ہوئے جاتے ہیں انسانی کردار
فوکس میں رفتہ رفتہ شیطان ابھرتا آتا ہے

عبد الاحد ساز




پیاس بجھ جائے زمیں سبز ہو منظر دھل جائے
کام کیا کیا نہ ان آنکھوں کی تری آئے ہمیں

عبد الاحد ساز




رات ہے لوگ گھر میں بیٹھے ہیں
دفتر آلودہ و دکان زدہ

عبد الاحد ساز




سازؔ جب کھلا ہم پر شعر کوئی غالبؔ کا
ہم نے گویا باطن کا اک سراغ سا پایا

عبد الاحد ساز




شاعری طلب اپنی شاعری عطا اس کی
حوصلے سے کم مانگا ظرف سے سوا پایا

عبد الاحد ساز