EN हिंदी
بہار بن کے خزاں کو نہ یوں دلاسا دے | شیح شیری
bahaar ban ke KHizan ko na yun dilasa de

غزل

بہار بن کے خزاں کو نہ یوں دلاسا دے

عبد الحفیظ نعیمی

;

بہار بن کے خزاں کو نہ یوں دلاسا دے
نگاہیں پھیر لے اپنی نہ خود کو دھوکا دے

مصاف زیست ہے بھر دے لہو سے جام مرا
نہ مسکرا کے مجھے ساغر تمنا دے

کھڑا ہوا ہوں سر راہ منتظر کب سے
کہ کوئی گزرے تو غم کا یہ بوجھ اٹھوا دے

وہ آنکھ تھی کہ بدن کو جھلس گئی قربت
مگر وہ شعلہ نہیں روح کو جو گرما دے

ہجوم غم وہ رہا عمر بھر در دل پر
خوشی اسی میں رہی یہ ہجوم رستا دے

لکھا ہے کیا مرے چہرے پہ تو جو شرمایا
زبان سے نہ بتا آئنا ہی دکھلا دے

میں لڑکھڑا سا گیا ہوں وفا کے وعدے پر
پکڑ کے ہاتھ مجھے گھر تلک تو پہونچا دے

سکوت انجم و مہ نے چھپا لیا ہے جسے
جھکی نظر نہ کسی کو وہ راز بتلا دے

ہر ایک درد کا درماں ہے لوگ کہتے ہیں
مگر وہ درد نعیمیؔ جو خود مسیحا دے