EN हिंदी
نقش دل ہے ستم جدائی کا | شیح شیری
naqsh-e-dil hai sitam judai ka

غزل

نقش دل ہے ستم جدائی کا

عبد الغفور نساخ

;

نقش دل ہے ستم جدائی کا
شوق پھر کس کو آشنائی کا

چکھتے ہیں اب مزا جدائی کا
یہ نتیجہ ہے آشنائی کا

ان کے دل کی کدورت اور بڑھی
ذکر کیجیے اگر صفائی کا

دیکھ تو سنگ آستاں پہ ترے
ہے نشاں کس کی جبہہ سائی کا

تیرے در کا گدا جو ہے اے دوست
عیش کرتا ہے بادشائی کا

دختر رز نے کر دیا باطل
مجھ کو دعویٰ تھا پارسائی کا

کرتے ہیں اہل آسماں چرچا
میرے نالوں کی نارسائی کا

کاٹ ڈالو اگر زباں پہ مرے
حرف آیا ہو آشنائی کا

کر کے صدقے نہ چھوڑ دیں نساخؔ
دل کو دھڑکا ہے کیوں رہائی کا