ملا جو کوئی یہاں رمز آشنا نہ مجھے
وبال ہوش رہا حرف محرمانہ مجھے
اداس پھرتی ہے شاداب وادیوں کی مہک
ہے کائنات یہی کنج آشیانہ مجھے
عدو کی سنگ زنی کی نہیں مجھے پروا
ترے کرم کا میسر ہے شامیانہ مجھے
کوئی علاج غم زندگی بتا واعظ
سنے ہوئے جو فسانے ہیں پھر سنا نہ مجھے
سبک سری میں زمین وطن بھی تنگ ہوئی
کشاں کشاں لیے پھرتا ہے آب و دانہ مجھے
مرے نصیب میں ہے کشت جاں کی ویرانی
نہ آئی راس رہ و رسم عاشقانہ مجھے
بھٹک رہا ہوں اسی کی تلاش میں اخترؔ
کہ جس دیار کو چھوڑے ہوا زمانہ مجھے
غزل
ملا جو کوئی یہاں رمز آشنا نہ مجھے
اختر ضیائی