دن ڈھلا شب ہوئی چراغ جلے
بزم رنداں میں پھر ایاغ جلے
دفعتاً آندھیوں نے رخ بدلا
ناگہاں آرزو کے باغ جلے
آس ڈوبی تو دل ہوا روشن
بجھ گیا دل تو دل کے داغ جلے
جل بجھے جستجو کے پروانے
مستقل منزل سراغ جلے
گاہ مصروفیت سلگ اٹھے
گاہ تنہائی و فراغ جلے
آنکھیں کرتی ہیں شبنم افشانی
جب تری یاد میں دماغ جلے
ان کا چہرہ تہ نقاب اخترؔ
جیسے پردے میں اک چراغ جلے
غزل
دن ڈھلا شب ہوئی چراغ جلے
اختر ضیائی