EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ان وفاداری کے وعدوں کو الٰہی کیا ہوا
وہ وفائیں کرنے والے بے وفا کیوں ہو گئے

اختر شیرانی




انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا
اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے

اختر شیرانی




عشق کو نغمۂ امید سنا دے آ کر
دل کی سوئی ہوئی قسمت کو جگا دے آ کر

اختر شیرانی




کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں

اختر شیرانی




خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں
ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے

اختر شیرانی




کسی مغرور کے آگے ہمارا سر نہیں جھکتا
فقیری میں بھی اخترؔ غیرت شاہانہ رکھتے ہیں

اختر شیرانی




کیا ہے آنے کا وعدہ تو اس نے
مرے پروردگار آئے نہ آئے

اختر شیرانی