EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کچھ اس طرح سے یاد آتے رہے ہو
کہ اب بھول جانے کو جی چاہتا ہے

اختر شیرانی




کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا
تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا

اختر شیرانی




کوچۂ حسن چھٹا تو ہوئے رسوائے شراب
اپنی قسمت میں جو لکھی تھی وہ خواری نہ گئی

اختر شیرانی




لانڈری کھولی تھی اس کے عشق میں
پر وہ کپڑے ہم سے دھلواتا نہیں

اختر شیرانی




مانا کہ سب کے سامنے ملنے سے ہے حجاب
لیکن وہ خواب میں بھی نہ آئیں تو کیا کریں

اختر شیرانی




مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر
آج تک تیرے خطوں سے تری خوشبو نہ گئی

اختر شیرانی




محبت کے اقرار سے شرم کب تک
کبھی سامنا ہو تو مجبور کر دوں

اختر شیرانی