EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ جگنو ہو ستارہ ہو کہ آنسو
اندھیرے میں سبھی مہتاب سے ہیں

اختر شاہجہانپوری




یہ بھی کیا بات کہ میں تیری انا کی خاطر
تیری قامت سے زیادہ ترا سایا چاہوں

اختر شاہجہانپوری




یہ معجزہ ہمارے ہی طرز بیاں کا تھا
اس نے وہ سن لیا تھا جو ہم نے کہا نہ تھا

اختر شاہجہانپوری




یہ منصفان شہر ہیں یہ پاسبان شہر
ان کو بتاؤ نام جو بلوائیوں کے ہیں

اختر شاہجہانپوری




ذرا یادوں کے ہی پتھر اچھالو
نواح جاں میں سناٹے بہت ہیں

اختر شاہجہانپوری




لفظ لکھنا ہے تو پھر کاغذ کی نیت سے نہ ڈر
اس قدر اظہار کی بے معنویت سے نہ ڈر

اختر شیخ




آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا
کیا بتاؤں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا

اختر شیرانی