EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی
اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے

اختر شیرانی




غم عزیزوں کا حسینوں کی جدائی دیکھی
دیکھیں دکھلائے ابھی گردش دوراں کیا کیا

اختر شیرانی




غم عاقبت ہے نہ فکر زمانہ
پئے جا رہے ہیں جئے جا رہے ہیں

اختر شیرانی




غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ
یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے

اختر شیرانی




ہے قیامت ترے شباب کا رنگ
رنگ بدلے گا پھر زمانے کا

اختر شیرانی




اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم
نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں

اختر شیرانی




اک وہ کہ آرزؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر
اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمان آرزو!

اختر شیرانی