EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

لوگ یہ سوچ کے ہی پریشان ہیں
میں زمیں تھا تو کیوں آسماں ہو گیا

اختر شاہجہانپوری




میں جھوٹ کو سچائی کے پیکر میں سجاتا
کیا کیجیے مجھ کو یہ ہنر ہی نہیں آیا

اختر شاہجہانپوری




پرانے وقتوں کے کچھ لوگ اب بھی کہتے ہیں
بڑا وہی ہے جو دشمن کو بھی معاف کرے

اختر شاہجہانپوری




رنج و غم سہنے کی عادت ہو گئی ہے
زندہ رہنے کے سلیقے دے گیا وہ

اختر شاہجہانپوری




رنج و غم ٹھوکریں مایوسی گھٹن بے زاری
میرے خوابوں کی یہ تعبیر بھی ہو سکتی ہے

اختر شاہجہانپوری




تمہارے خط کبھی پڑھنا کبھی ترتیب سے رکھنا
عجب مشغولیت رہتی ہے بیکاری کے موسم میں

اختر شاہجہانپوری




وہ اک لمحہ جو تیرے وصل کا تھا
بیاض ہجر پر لکھا ہوا ہے

اختر شاہجہانپوری