لوگ یہ سوچ کے ہی پریشان ہیں
میں زمیں تھا تو کیوں آسماں ہو گیا
اختر شاہجہانپوری
میں جھوٹ کو سچائی کے پیکر میں سجاتا
کیا کیجیے مجھ کو یہ ہنر ہی نہیں آیا
اختر شاہجہانپوری
پرانے وقتوں کے کچھ لوگ اب بھی کہتے ہیں
بڑا وہی ہے جو دشمن کو بھی معاف کرے
اختر شاہجہانپوری
رنج و غم سہنے کی عادت ہو گئی ہے
زندہ رہنے کے سلیقے دے گیا وہ
اختر شاہجہانپوری
رنج و غم ٹھوکریں مایوسی گھٹن بے زاری
میرے خوابوں کی یہ تعبیر بھی ہو سکتی ہے
اختر شاہجہانپوری
تمہارے خط کبھی پڑھنا کبھی ترتیب سے رکھنا
عجب مشغولیت رہتی ہے بیکاری کے موسم میں
اختر شاہجہانپوری
وہ اک لمحہ جو تیرے وصل کا تھا
بیاض ہجر پر لکھا ہوا ہے
اختر شاہجہانپوری