جو فقط شوخیٔ تحریر بھی ہو سکتی ہے
وہ مرے پاؤں کی زنجیر بھی ہو سکتی ہے
صرف ویرانہ ہی غمگینی کا باعث تو نہیں
عہد ماضی کی وہ تصویر بھی ہو سکتی ہے
چشم حسرت سے جو ٹپکی ہے لہو کی اک بوند
صبح امید کی تنویر بھی ہو سکتی ہے
رنج و غم ٹھوکریں مایوسی گھٹن بے زاری
میرے خوابوں کی یہ تعبیر بھی ہو سکتی ہے
بد گماں ہے تو وہی مورد الزام ہو کیوں
کچھ نہ کچھ تو مری تقصیر بھی ہو سکتی ہے
ہوش قائم رہیں طوفان حوادث میں اگر
بچ نکل جانے کی تدبیر بھی ہو سکتی ہے
تیرگی بخت کی سمجھو نہ اسے تم اخترؔ
ملتفت زلف گرہ گیر بھی ہو سکتی ہے
غزل
جو فقط شوخیٔ تحریر بھی ہو سکتی ہے
اختر شاہجہانپوری