جب مخالف مرا رازداں ہو گیا
راز سر بستہ سب پر عیاں ہو گیا
مجھ کو احساس شرمندگی ہے بہت
قصۂ درد کیسے بیاں ہو گیا
کتنی حسرت سے تکتی رہی ہر خوشی
اور دامن مرا دھجیاں ہو گیا
مسئلہ بن گئی فکر تفہیم کا
لفظ کا حسن بھی رائیگاں ہو گیا
لوگ یہ سوچ کے ہی پریشان ہیں
میں زمیں تھا تو کیوں آسماں ہو گیا
شکوہ سنجان تنہائی ہیں سب کے سب
میرا غم بھی غم دو جہاں ہو گیا
پیڑ کیا میرے آنگن کا اخترؔ گرا
لوگ سمجھے کہ میں بے اماں ہو گیا
غزل
جب مخالف مرا رازداں ہو گیا
اختر شاہجہانپوری