اگر بلندی کا میری وہ اعتراف کرے
تو پھر ضروری ہے آ کر یہاں طواف کرے
دلوں میں خواہش دیدار ہو تو لازم ہے
جو آئنہ بھی میسر ہو اس کو صاف کرے
رہوں گا میں تو ہمیشہ قصیدہ خواں اس کا
زمیں فلک سے بھلا کیسے اختلاف کرے
حصار ذات سے باہر نکلنا ہو جس کو
انا کی آہنی دیوار میں شگاف کرے
جہاں بھی قدر شناسی میں کچھ کمی دیکھے
وہاں ضروری ہے خود بھی کچھ انکشاف کرے
پرانے وقتوں کے کچھ لوگ اب بھی کہتے ہیں
بڑا وہی ہے جو دشمن کو بھی معاف کرے
وہ میرا دوست بھی منصف بھی ہے مگر اخترؔ
ہر ایک فیصلہ میرے ہی کیوں خلاف کرے
غزل
اگر بلندی کا میری وہ اعتراف کرے
اختر شاہجہانپوری