کہاں سے لائیں گے آنسو عزا داری کے موسم میں
بہت کچھ رو چکے ہم تو اداکاری کے موسم میں
اتر آؤں گا میں بھی زینۂ ہستی سے یوں اک دن
کہ جیسے رنگ رخ اترے ہے ناداری کے موسم میں
تمہارے خط کبھی پڑھنا کبھی ترتیب سے رکھنا
عجب مشغولیت رہتی ہے بیکاری کے موسم میں
بجز میرے زمانے کی قبا رنگین کر ڈالی
یہ کیا تفریق رکھی اس نے گلکاری کے موسم میں
سر برگ تمنا مرہم دیدار کہہ جائیں
نہ آئیں سامنے میرے نگہ داری کے موسم میں
طلوع مہر سے ٹوٹے گی ان کی نیند نا ممکن
جو خوابیدہ رہا کرتے ہیں بیداری کے موسم میں
ترس کھاتے ہیں کیوں احباب میرے حال پر اخترؔ
بہت بے چینیاں بڑھتی ہیں غم خواری کے موسم میں
غزل
کہاں سے لائیں گے آنسو عزا داری کے موسم میں
اختر شاہجہانپوری