اک عمر بھٹکتے رہے گھر ہی نہیں آیا
ساحل کی تمنا تھی نظر ہی نہیں آیا
روشن ہیں جہاں شمع محبت کی قطاریں
وہ کنج کم آثار نظر ہی نہیں آیا
میں جھوٹ کو سچائی کے پیکر میں سجاتا
کیا کیجیے مجھ کو یہ ہنر ہی نہیں آیا
وہ گنبد بے در تھا کہ دیوار انا تھی
منظر کوئی باہر کا نظر ہی نہیں آیا
اک ایسا سفر بھی مجھے درپیش تھا لوگو
کچھ کام جہاں زاد سفر ہی نہیں آیا
بیٹھے رہے پلکوں کو بچھائے سر راہے
وہ جان جہاں گشت ادھر ہی نہیں آیا
اک پل کو جہاں بیٹھا ہوں تھک کر کبھی اخترؔ
رستے میں کوئی ایسا شجر ہی نہیں آیا
غزل
اک عمر بھٹکتے رہے گھر ہی نہیں آیا
اختر شاہجہانپوری