دل بہلنے کے وسیلے دے گیا وہ
اپنی یادوں کے کھلونے دے گیا وہ
ہم سخن تنہائیوں میں کوئی تو ہو
سونے سونے سے دریچے دے گیا وہ
لے گیا میری خودی میری انا بھی
اے جبین شوق سجدے دے گیا وہ
رنج و غم سہنے کی عادت ہو گئی ہے
زندہ رہنے کے سلیقے دے گیا وہ
میری ہمت جانتا تھا اس لیے بھی
ڈوبنے والے سفینے دے گیا وہ
زندگی بھر جوڑتے رہنا ہے ان کو
ٹوٹی زنجیروں سے رشتے دے گیا وہ
زر فشاں ہر لفظ زریں ہر ورق ہے
اخترؔ ایسے کچھ صحیفے دے گیا وہ
غزل
دل بہلنے کے وسیلے دے گیا وہ
اختر شاہجہانپوری