جو پلکوں پر مری ٹھہرا ہوا ہے
وہ آنسو خون میں ڈوبا ہوا ہے
فرشتے خوان لے کر آ رہے ہیں
صحیفہ طاق میں رکھا ہوا ہے
کوئی انہونی شاید ہو گئی پھر
غبار کارواں ٹھہرا ہوا ہے
کسی کی خواہشیں پابستہ کر کے
یہ کب سوچا حرم رسوا ہوا ہے
وہ اک لمحہ جو تیرے وصل کا تھا
بیاض ہجر پر لکھا ہوا ہے
مجھے بھی ہو گیا عرفان ذات اب
مقابل آئنہ رکھا ہوا ہے
عیادت کرنے سب آئے ہیں اخترؔ
ترا چہرہ مگر اترا ہوا ہے
غزل
جو پلکوں پر مری ٹھہرا ہوا ہے
اختر شاہجہانپوری