میں ہر اک حال میں تھا گردش دوراں کا امیں
جس نے دنیا نہیں دیکھی مرا چہرہ دیکھے
اختر امام رضوی
ساحل ساحل دار سجے ہیں موج موج زنجیریں ہیں
ڈوبنے والے دریا دریا جشن مناتے رہتے ہیں
اختر امام رضوی
تھکا ہوا ہوں کسی سائے کی تلاش میں ہوں
بچھڑ گیا ہوں ستاروں سے روشنی کی طرح
اختر امام رضوی
توڑ بھی دو احساس کے رشتے چھوڑ بھی دو دکھ اپنانے
رو رو کے جیون کاٹو گے رو رو کے مر جاؤ گے
اختر امام رضوی
وہ خود تو مر ہی گیا تھا مجھے بھی مار گیا
وہ اپنے روگ مری روح میں اتار گیا
اختر امام رضوی
دیکھو اس نے قدم قدم پر ساتھ دیا بیگانے کا
اخترؔ جس نے عہد کیا تھا تم سے ساتھ نبھانے کا
اختر لکھنوی
ہمیں خدا پہ بھروسہ ہے نا خدا پہ نہیں
خدا جو دیتا ہے وہ نا خدا نہیں دیتا
اختر لکھنوی