وہ خود تو مر ہی گیا تھا مجھے بھی مار گیا
وہ اپنے روگ مری روح میں اتار گیا
سمندروں کی یہ شورش اسی کا ماتم ہے
جو خود تو ڈوب گیا موج کو ابھار گیا
ہوا کے زخم کھلے تھے اداس چہرے پر
خزاں کے شہر سے کوٹی تو پر بہار گیا
اندھیری رات کی پرچھائیوں میں ڈوب گیا
سحر کی کھوج میں جو بھی افق کے پار گیا
وہ روشنی کا مسافر میں تیرگی کا دھواں
تو پھر بھلا وہ مجھے کس لیے پکار گیا
میں اپنے سوچ کے ہم زاد کا پجاری تھا
ترا جلال مری عاقبت سنوار گیا
غزل
وہ خود تو مر ہی گیا تھا مجھے بھی مار گیا
اختر امام رضوی