کسی کا چہرہ کسی پر سجا نہیں دیتا
کبھی فریب کوئی آئنہ نہیں دیتا
حسد کا رنگ پسندیدہ رنگ ہے سب کا
یہاں کسی کو کوئی اب دعا نہیں دیتا
اک اعتماد تھا باقی سو اٹھ گیا وہ بھی
کہ بھائی بھائی کے گھر کا پتا نہیں دیتا
بجھائے جب سے ہمارے چراغ لوگوں نے
کوئی درخت ہمیں اب ہوا نہیں دیتا
ہمیں خدا پہ بھروسہ ہے نا خدا پہ نہیں
خدا جو دیتا ہے وہ نا خدا نہیں دیتا
غزل
کسی کا چہرہ کسی پر سجا نہیں دیتا
اختر لکھنوی