EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب بھی آتی ہے تری یاد پہ اس کرب کے ساتھ
ٹوٹتی نیند میں جیسے کوئی سپنا دیکھے

اختر امام رضوی




اپنوں کی چاہتوں نے بھی کیا کیا دیئے فریب
روتے رہے لپٹ کے ہر اک اجنبی کے ساتھ

اختر امام رضوی




اشک جب دیدۂ تر سے نکلا
ایک کانٹا سا جگر سے نکلا

اختر امام رضوی




چاندنی کے ہاتھ بھی جب ہو گئے شل رات کو
اپنے سینے پر سنبھالا میں نے بوجھل رات کو

اختر امام رضوی




جنگل کی دھوپ چھاؤں ہی جنگل کا حسن ہے
سایوں کو بھی قبول کرو روشنی کے ساتھ

اختر امام رضوی




جرم ہستی کی سزا کیوں نہیں دیتے مجھ کو
لوگ جینے کی دعا کیوں نہیں دیتے مجھ کو

اختر امام رضوی




کم ظرف زمانے کی حقارت کا گلہ کیا
میں خوش ہوں مرا پیار سمندر کی طرح ہے

اختر امام رضوی