جیتے جی دکھ سکھ کے لمحے آتے جاتے رہتے ہیں
ہم تو ذرا سی بات پہ پہروں اشک بہاتے رہتے ہیں
وہ اپنے ماتھے پر جھوٹے روگ سجا کر پھرتے ہیں
ہم اپنی آنکھوں کے جلتے زخم چھپاتے رہتے ہیں
سوچ سے پیکر کیسے ترشے سوچ کا انت نرالا ہے
خاک پہ بیٹھے آڑے ترچھے نقش بناتے رہتے ہیں
ساحل ساحل دار سجے ہیں موج موج زنجیریں ہیں
ڈوبنے والے دریا دریا جشن مناتے رہتے ہیں
اخترؔ اب انصاف کی آنکھیں زر کی کھنک سے کھلتی ہیں
ہم پاگل ہیں لوہے کی زنجیر ہلاتے رہتے ہیں
غزل
جیتے جی دکھ سکھ کے لمحے آتے جاتے رہتے ہیں
اختر امام رضوی