دل وہ پیاسا ہے کہ دریا کا تماشا دیکھے
اور پھر لہر نہ دیکھے کف دریا دیکھے
میں ہر اک حال میں تھا گردش دوراں کا امیں
جس نے دنیا نہیں دیکھی مرا چہرہ دیکھے
اب بھی آتی ہے تری یاد پہ اس کرب کے ساتھ
ٹوٹتی نیند میں جیسے کوئی سپنا دیکھے
رنگ کی آنچ میں جلتا ہوا خوشبو کا بدن
آنکھ اس پھول کی تصویر میں کیا کیا دیکھے
کوئی چوٹی نہیں اب تو مرے قد سے آگے
یہ زمانہ تو ابھی اور بھی اونچا دیکھے
پھر وہی دھند میں لپٹا ہوا پیکر ہوگا
کون بے کار میں اٹھتا ہوا پردہ دیکھے
ایک احساس ندامت سے لرز اٹھتا ہوں
جب رم موج مری وسعت صحرا دیکھے
غزل
دل وہ پیاسا ہے کہ دریا کا تماشا دیکھے
اختر امام رضوی