EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

موسم گل ترے صدقے تری آمد کے نثار
دیکھ مجھ سے مرا سایہ بھی جدا ہے اب کے

اختر لکھنوی




سونے کتنے بام ہوئے کتنے آنگن بے نور ہوئے
چاند سے چہرے یاد آتے ہیں چاند نکلتے وقت بہت

اختر لکھنوی




عجیب الجھن میں تو نے ڈالا مجھے بھی اے گردش زمانہ
سکون ملتا نہیں قفس میں نہ راس آتا ہے آشیانہ

اختر مسلمی




اشک وہ ہے جو رہے آنکھ میں گوہر بن کر
اور ٹوٹے تو بکھر جائے نگینوں کی طرح

اختر مسلمی




دیہات کے بسنے والے تو اخلاص کے پیکر ہوتے ہیں
اے کاش نئی تہذیب کی رو شہروں سے نہ آتی گاؤں میں

اختر مسلمی




دی اس نے مجھ کو جرم محبت کی وہ سزا
کچھ بے قصور لوگ سزا مانگنے لگے

اختر مسلمی




ایک ہی انجام ہے اے دوست حسن و عشق کا
شمع بھی بجھتی ہے پروانوں کے جل جانے کے بعد

اختر مسلمی