موسم گل ترے صدقے تری آمد کے نثار
دیکھ مجھ سے مرا سایہ بھی جدا ہے اب کے
اختر لکھنوی
سونے کتنے بام ہوئے کتنے آنگن بے نور ہوئے
چاند سے چہرے یاد آتے ہیں چاند نکلتے وقت بہت
اختر لکھنوی
عجیب الجھن میں تو نے ڈالا مجھے بھی اے گردش زمانہ
سکون ملتا نہیں قفس میں نہ راس آتا ہے آشیانہ
اختر مسلمی
اشک وہ ہے جو رہے آنکھ میں گوہر بن کر
اور ٹوٹے تو بکھر جائے نگینوں کی طرح
اختر مسلمی
دیہات کے بسنے والے تو اخلاص کے پیکر ہوتے ہیں
اے کاش نئی تہذیب کی رو شہروں سے نہ آتی گاؤں میں
اختر مسلمی
دی اس نے مجھ کو جرم محبت کی وہ سزا
کچھ بے قصور لوگ سزا مانگنے لگے
اختر مسلمی
ایک ہی انجام ہے اے دوست حسن و عشق کا
شمع بھی بجھتی ہے پروانوں کے جل جانے کے بعد
اختر مسلمی