جو سنگ ہو کے ملائم ہے سادگی کی طرح
پگھل رہا ہے مرے دل میں چاندنی کی طرح
مجھے پکارو تو دیوار ہوں سنو تو صدا
میں گونجتا ہوں فضاؤں میں خامشی کی طرح
میں اس کو نور کا پیکر کہوں کہ جان خیال
جو میرے دل پہ اترتا ہے شاعری کی طرح
کسی کی یاد نے مہکا دیا ہے زخم طلب
صبا کے ہاتھ سے مسلی ہوئی کلی کی طرح
تھکا ہوا ہوں کسی سائے کی تلاش میں ہوں
بچھڑ گیا ہوں ستاروں سے روشنی کی طرح
میں اپنے کرب میں غلطاں وہ اپنے کیف میں گم
ہے اس کی جیت بھی میری شکست ہی کی طرح
خزاں کے زہر کا تریاک اگر نہیں یارو
گلوں کی بات ہے بے وقت راگنی کی طرح
غزل
جو سنگ ہو کے ملائم ہے سادگی کی طرح
اختر امام رضوی