اپنا دکھ اپنا ہے پیارے غیر کو کیوں الجھاؤ گے
اپنے دکھ میں پاگل ہو کر اب کس کو سمجھاؤ گے
درد کے صحرا میں لاکھوں امید کے لاشے گلتے ہیں
ایک ذرا سے دامن میں تم کس کس کو کفناؤ گے
توڑ بھی دو احساس کے رشتے چھوڑ بھی دو دکھ اپنانے
رو رو کے جیون کاٹو گے رو رو کے مر جاؤ گے
راز کی بات کو خاموشی کا زہر سمجھ کر پی جانا
کہنے سے بھی رہ نہ سکو گے کہہ کر بھی پچھتاؤ گے
آج یہاں پردوں سے ادھر عریانی ہی عریانی ہے
تم بھی ننگے ہو کر ناچو یوں کب تک شرماؤ گے
غزل
اپنا دکھ اپنا ہے پیارے غیر کو کیوں الجھاؤ گے
اختر امام رضوی