زندگی مرگ طلب ترک طلب اخترؔ نہ تھی
پھر بھی اپنے تانے بانے میں مجھے الجھا گئی
اختر ہوشیارپوری
دل جہاں بات کرے دل ہی جہاں بات سنے
کار دشوار ہے اس طرز میں کہنا اچھا
اختر حسین جعفری
شاخ تنہائی سے پھر نکلی بہار فصل ذات
اپنی صورت پر ہوئے ہم پھر بحال اس کے لیے
اختر حسین جعفری
تپش گلزار تک پہنچی لہو دیوار تک آیا
چراغ خود کلامی کا دھواں بازار تک آیا
اختر حسین جعفری
اندھیری رات کی پرچھائیوں میں ڈوب گیا
سحر کی کھوج میں جو بھی افق کے پار گیا
اختر امام رضوی
آخری دید ہے آؤ مل لیں
رنج بے کار ہے کیا ہونا ہے
اختر امام رضوی
اب بھی آتی ہے تری یاد پہ اس کرب کے ساتھ
ٹوٹتی نیند میں جیسے کوئی سپنا دیکھا
اختر امام رضوی