EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

شباب درد مری زندگی کی صبح سہی
پیوں شراب یہاں تک کہ شام ہو جائے

اختر انصاری




سننے والے فسانہ تیرا ہے
صرف طرز بیاں ہی میرا ہے

اختر انصاری




اس سے پوچھے کوئی چاہت کے مزے
جس نے چاہا اور جو چاہا گیا

اختر انصاری




وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا
نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے

اختر انصاری




یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اختر انصاری




یاروں کے اخلاص سے پہلے دل کا مرے یہ حال نہ تھا
اب وہ چکناچور پڑا ہے جس شیشے میں بال نہ تھا

اختر انصاری




ابھی بہار نے سیکھی کہاں ہے دل جوئی
ہزار داغ ابھی قلب لالہ زار میں ہیں

اختر انصاری اکبرآبادی