نا جانے قافلے پوشیدہ کس غبار میں ہیں
کہ منزلوں کے چراغ اب تک انتظار میں ہیں
بچا بچا کے گزرنا ہے دامن ہستی
شریک خار بھی کچھ جشن نو بہار میں ہیں
کسی جدید تلاطم کا انتظار نہ ہو
سنا تو ہے کہ سفینے ابھی قرار میں ہیں
پکارتے ہیں کہ دوڑو گزر نہ جائے یہ دور
چراغ بجھتے ہوئے سے جو رہ گزار میں ہیں
ابھی تو دور ہے منزل یہ قافلوں کے ہجوم
ابھی تو مرحلۂ جبر و اختیار میں ہیں
ابھی بہار نے سیکھی کہاں ہے دل جوئی
ہزار داغ ابھی قلب لالہ زار میں ہیں
نکھر نکھر کے جو مسموم کر رہے ہیں فضا
کچھ ایسے پھول بھی اخترؔ نئی بہار میں ہیں
غزل
نا جانے قافلے پوشیدہ کس غبار میں ہیں
اختر انصاری اکبرآبادی