یاروں کے اخلاص سے پہلے دل کا مرے یہ حال نہ تھا
اب وہ چکناچور پڑا ہے جس شیشے میں بال نہ تھا
انساں آ کر نئی ڈگر پر کھو بیٹھا ہے ہوش و حواس
پہلے بھی بے ہوش تھا لیکن ایسا بھی بد حال نہ تھا
گلشن گلشن ویرانی ہے جنگل جنگل سناٹا
ہائے وہ دن جب ہر منزل میں شورش غم کا کال نہ تھا
کیوں رے دوانے شہر یہی ہے اک اک پل بھاری ہے جہاں
اپنے ویرانے میں اے دل جی کا یہ جنجال نہ تھا
ہم جو لٹے اس شہر میں جا کر دکھ لوگوں کو کیوں پہنچا
اپنی نظر تھی اپنا دل تھا کوئی پرایا مال نہ تھا
تیری خاک پہ روشن روشن اخترؔ جیسے ستارے تھے
تجھ سا اے مہران کی وادی کوئی بلند اقبال نہ تھا
غزل
یاروں کے اخلاص سے پہلے دل کا مرے یہ حال نہ تھا
اختر انصاری اکبرآبادی