EN हिंदी
یاروں کے اخلاص سے پہلے دل کا مرے یہ حال نہ تھا | شیح شیری
yaron ke iKHlas se pahle dil ka mere ye haal na tha

غزل

یاروں کے اخلاص سے پہلے دل کا مرے یہ حال نہ تھا

اختر انصاری اکبرآبادی

;

یاروں کے اخلاص سے پہلے دل کا مرے یہ حال نہ تھا
اب وہ چکناچور پڑا ہے جس شیشے میں بال نہ تھا

انساں آ کر نئی ڈگر پر کھو بیٹھا ہے ہوش و حواس
پہلے بھی بے ہوش تھا لیکن ایسا بھی بد حال نہ تھا

گلشن گلشن ویرانی ہے جنگل جنگل سناٹا
ہائے وہ دن جب ہر منزل میں شورش غم کا کال نہ تھا

کیوں رے دوانے شہر یہی ہے اک اک پل بھاری ہے جہاں
اپنے ویرانے میں اے دل جی کا یہ جنجال نہ تھا

ہم جو لٹے اس شہر میں جا کر دکھ لوگوں کو کیوں پہنچا
اپنی نظر تھی اپنا دل تھا کوئی پرایا مال نہ تھا

تیری خاک پہ روشن روشن اخترؔ جیسے ستارے تھے
تجھ سا اے مہران کی وادی کوئی بلند اقبال نہ تھا