گل کھلائے نہ کہیں فتنۂ دوراں کچھ اور
آج کل دور مے و جام سے جی ڈرتا ہے
اختر انصاری اکبرآبادی
گلوں کا ذکر بہاروں میں کر چکے اخترؔ
اب آؤ ہوش میں برق و شرر کی بات کرو
اختر انصاری اکبرآبادی
ہم جو لٹے اس شہر میں جا کر دکھ لوگوں کو کیوں پہنچا
اپنی نظر تھی اپنا دل تھا کوئی پرایا مال نہ تھا
اختر انصاری اکبرآبادی
ہو کوئی موج طوفاں یا ہوائے تند کا جھونکا
جو پہنچا دے لب ساحل اسی کو ناخدا سمجھو
اختر انصاری اکبرآبادی
اک حسن مکمل ہے تو اک عشق سراپا
ہشیار سا اک شخص ہے دیوانہ سا اک شخص
اختر انصاری اکبرآبادی
کچھ اندھیرے ہیں ابھی راہ میں حائل اخترؔ
اپنی منزل پہ نظر آئے گا انساں اک روز
اختر انصاری اکبرآبادی
کیا کرشمہ ہے مرے جذبۂ آزادی کا
تھی جو دیوار کبھی اب ہے وہ در کی صورت
اختر انصاری اکبرآبادی