کیوں کرو اخترؔ کی باتیں وہ تو اک دیوانہ ہے
تم تو یارو اپنی اپنی داستاں کہتے رہو
اختر انصاری اکبرآبادی
کیوں شکن پڑ گئی ہے ابرو پر
میں تو کہتا ہوں ایک بات کی بات
اختر انصاری اکبرآبادی
راہ پر آ ہی گئے آج بھٹکنے والے
راہبر دیکھ وہ منزل کا نشاں ہے کہ نہیں
اختر انصاری اکبرآبادی
سہارا دے نہیں سکتے شکستہ پاؤں کو
ہٹاؤ راہ محبت سے رہنماؤں کو
اختر انصاری اکبرآبادی
یہی ہیں یادگار غنچہ و گل اس زمانے میں
انہیں سوکھے ہوئے کانٹوں سے ذکر گلستاں لکھیے
اختر انصاری اکبرآبادی
یہ رنگ و کیف کہاں تھا شباب سے پہلے
نظر کچھ اور تھی موج شراب سے پہلے
اختر انصاری اکبرآبادی
ظلم سہتے رہے شکر کرتے رہے آئی لب تک نہ یہ داستاں آج تک
مجھ کو حیرت رہی انجمن میں تری کیوں ہیں خاموش اہل زباں آج تک
اختر انصاری اکبرآبادی