EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ملا کے قطرۂ شبنم میں رنگ و نکہت گل
کوئی شراب بناؤ بہار کے دن ہیں

اختر انصاری




مری خبر تو کسی کو نہیں مگر اخترؔ
زمانہ اپنے لیے ہوشیار کیسا ہے

اختر انصاری




رنگ و بو میں ڈوبے رہتے تھے حواس
ہائے کیا شے تھی بہار آرزو

اختر انصاری




رگوں میں دوڑتی ہیں بجلیاں لہو کے عوض
شباب کہتے ہیں جس چیز کو قیامت ہے

اختر انصاری




روئے بغیر چارہ نہ رونے کی تاب ہے
کیا چیز اف یہ کیفیت اضطراب ہے

اختر انصاری




سمجھتا ہوں میں سب کچھ صرف سمجھانا نہیں آتا
تڑپتا ہوں مگر اوروں کو تڑپانا نہیں آتا

اختر انصاری




شباب نام ہے اس جاں نواز لمحے کا
جب آدمی کو یہ محسوس ہو جواں ہوں میں

اختر انصاری