بس اک تسلسل تکرار قرب و دوری تھا
وصال و ہجر کا ہر مرحلہ عبوری تھا
مری شکست بھی تھی میری ذات سے منسوب
کہ میری فکر کا ہر فیصلہ شعوری تھا
تھی جیتی جاگتی دنیا مری محبت کی
نہ خواب کا سا وہ عالم کہ لا شعوری تھا
تعلقات میں ایسا بھی ایک موڑ آیا
کہ قربتوں پہ بھی دل کو گمان دوری تھا
روایتوں سے کنارہ کشی بھی لازم تھی
اور احترام روایات بھی ضروری تھا
مشینی دور کے آزار سے ہوا ثابت
کہ آدمی کا ملال آدمی سے دوری تھا
کھلا ہے کب کوئی جوہر حجاب میں اکبرؔ
گہر کے باب میں ترک صدف ضروری تھا
غزل
بس اک تسلسل تکرار قرب و دوری تھا
اکبر حیدرآبادی