کل عالم وجود کہ اک دشت نور تھا
سارا حجاب تیرہ دلی کا قصور تھا
سمجھے تھے جہد عشق میں ہم سرخ رو ہوئے
دیکھا مگر تو شیشۂ دل چور چور تھا
پہنچے نہ یوں ہی منزل اظہار ذات تک
تحت شعور اک سفر لا شعور تھا
تھا جو قریب اس کو بصیرت نہ تھی نصیب
جو دیکھتا تھا مجھ کو بہت مجھ سے دور تھا
مبہم تھے سب نقوش نقابوں کی دھند میں
چہرہ اک اور بھی پس چہرہ ضرور تھا
غزل
کل عالم وجود کہ اک دشت نور تھا
اکبر حیدرآبادی